خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ومنہا الغارم: وہو من لزمہ دین ولا یملک نصابا فاضلا عن دینہ … والدفع إلی من علیہ الدین أولی من الدفع إلی الفقیر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) فقط واﷲ تعالی اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۷؍۱۴۲۶ھزکوٰۃ کی رقم سے میت کا قرض ادا کرنا؟ سوال(۲۴۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید مقروض تھا اور اس کا انتقال ہوکیا ہے، زید کے مقروض ہونے کا علم اس کے گھر والوں کو ہے یانہیں واﷲ اعلم، عمر زید کا قریبی دوست ہے، عمر کو زید کے مقروض ہونے کا علم ہے، کیا زید کی طرف سے عمر اپنی زکوٰۃ کی رقم سے زید کا قرض ادا کرسکتا ہے یانہیں؟ اوراس صورت میں عمر کی زکوٰۃ ادا ہوگی یانہیں؟ یا عمر کو اپنی زکوٰۃ کی رقم کا تملیک کرانا ضروری ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: میت کی طرف سے زکوٰۃ کی رقم سے قرض لے کر ادا کرنے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اس کے لئے تملیک لازم ہے، اور اگر میت نے اپنے قرض کی ادائیگی کی وصیت کی ہے اور ترکہ بھی چھوڑا ہے، تو اسی ترکہ سے اس کے قرض کی ادائیگی ہونی چاہئے، زکوٰۃ کا پیسہ ایسے شخص کے قرض کی ادائیگی میں نہیں لگانا چاہئے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۴؍۲۶۰، فتاویٰ محمودیہ ۹؍۴۷۶) أخرج عبد الرزاق عن الثوري قال: الرجل لا یعطي زکاۃ مالہ من یحبس علی النفقۃ من ذوي أرحامہ ولا یعطیہا في کفن میت ولا دین میت۔ (المصنف لعبد الرزاق / باب لمن الزکاۃ ۴؍۱۱۳ رقم: ۷۱۷۰ بیروت) إذا قضی دین غیرہ من زکاتہ، فإن قضی بأمر المدیون وکان المدیون