خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
إن أحب أن یحج عنہ حج أو أرجو أن یجزیہ إن شاء اللّٰہ تعالی۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۵۶۴، فتاوی محمودیہ ۱۰؍۴۰۳ ڈابھیل، فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۵۷۲) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۸؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہبغیر وصیت کے میت کی طرف سے حج کرنا سوال(۲۱۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دور ماضی میں کوئی صاحب جن کا انتقال ہوچکا ہے، اس وقت ان کی مالی اعتبار سے حیثیت ایسی نہ تھی جو حج فرض ہوتا، لہٰذا انہوں نے کوئی وصیت بھی نہیں کی کہ میرے انتقال کے بعد میرا کوئی وارث میری طرف سے حج کرے، لہٰذا اگر ان کا وارث ان کے لئے حج کرتا ہے تو وہ حج بدل کی نیت کرے یا نفلی حج کی؟ اگر حج نفلی کرتا ہے تو اس کا ثواب صرف ایک ہی کے لئے ہوگا ، یا پھر کئی لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے؟ اگر حج بدل کیا جائے تو اس کا ثواب کئی لوگوں کے لئے پہنچا سکتے ہیں؟ یا پھر ایک کو؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں جب کہ میت پر خود حج فرض نہیں تھا، اور نہ ہی انہوں نے کوئی وصیت کی ہے، اس لئے وارث پر ان کی طرف سے حج بدل کرانا لازم نہیں ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص بطور تبرع میت کی طرف سے حج بدل کرلے، تو اس کا ثواب میت کو پہنچ جائے گا، اسی طرح حج نفل کرکے اس کا ثواب ایک یا متعدد حضرات کو پہنچایا جاسکتا ہے، اور نفلی حج بدل کا حکم بھی حج نفل ہی کی طرح ہے۔ (انوار مناسک ۵۴۹) بخلاف مالو أہل بحج من أبویہ أو غیرہما من الأجانب حال کونہ تبرعاً فعین بعد ذلک جاز؛ لأنہ تبرع بالثواب، فلہ جعلہ لأحدہما أو لہما۔ (درمختار) وإن أحرم عنہما بغیر أمرہما صح جعلہ لأحدہما، أولکل منہما۔