خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حج کرے یا بیوی کا مہر ادا کرے؟ سوال(۴۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید نے ابھی اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا اور وہ حج کا ارادہ رکھتا ہے؛ لیکن کیفیت یہ ہے کہ اگر وہ بیوی کا مہر ادا کرتا ہے تو حج کو نہیں جاپائے گا، ایسا شخص پہلے مہر ادا کرے یا حج کو جائے یا بیوی سے مہر معاف کرائے؟ اور کیا بیوی کا مہر معاف کرنا یا کرانا درست ہوگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کو چاہئے کہ بیوی سے کچھ دنوں کی مہلت لے لے اور حج کرنے کے بعد آکر اس کے مہر کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اور مہر معاف کرانے کا مطالبہ کرنا یہ کسی حال میں شوہر کے شایانِ شان نہیں ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ رحیمیہ ۸؍۲۸۰، امداد الاحکام ۳؍۱۵۶) إذا اجتمعت الحدود وفیہا حق العبد یبدأ بحق العبد۔ (شامي ۳؍۴۶۲ زکریا) ثم المراد من الاستطاعۃ یملک الزاد والراحلۃ أن یکون عندہ مال فاضل عن حوائجہ الأصلیۃ … وفي السراجیۃ: وقضاء دیونہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۷۱ زکریا) الحنفیۃ قالوا: الاستطاعۃ ہي القدرۃ علی الزاد والراحلۃ بشرط أن یکونا زائدین عن حاجاتہ الأصلیۃ کالدین الذي علیہ۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ مکمل ۳۵۱، کذا في الدر المختار ۳؍۴۶۰ زکریا) وعن قضاء دیونہ حالۃ أو مؤجلۃ، والمراد دیون عباد … وأصدقۃ نسائہ ولو مؤجلۃ ہٰذا ہو حد الغنی للحج في ظاہر الروایۃ۔ (غنیۃ الناسک ۲۰ إدارۃ القرآن کراچی) ویکرہ الخروج إلی الغزو والحج لمن علیہ الدین۔ (فتاویٰ قاضي خان ۱؍۳۱۳، کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۱) وأما تفسیر الزاد والراحلۃ فہو إن ملک من المال مقدار ما یبلغہ إلی مکۃ ذاہباً وجائیاً راکبًا لا ماشیاً بنفقۃ وسط لا إسراف فیہا ولا تقتیر، فاضلاً عن