خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن طارق قال: سمعت ابن أبي أوفی رضي اللّٰہ عنہ یسأل عن الرجل یستقرض ویحج، قال: یسترزق اللّٰہ ولا یستقرض، قال: وکنا نقول: لا یستقرض إلا أن یکون لہ وفاء۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۴؍۵۴۴ رقم: ۸۶۵۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت) من جاء ہ وقت خروج أہل بلدہ ، أو أشہر الحج وقد استکمل سائر شرائط الوجوب والأداء وجب علیہ الحج من عامہ، ووجب أداؤہ بنفسہ، فیلزمہ التأہب والخروج معہم فلو لم یحج حتی مات فعلیہ الإیصاء بہ، وکذلک لو لم یحج حتی افتقر تقرر وجوبہ دینا في ذمتہ ولایسقط عنہ بالفقر۔ (غنیۃ الناسک ۱۴ قدیم، ۳۳ إدارۃ القرآن کراچی) ووسعہ أن یستقرض ویحج الخ، أما إن علم أنہ لیس لہ جہۃ القضاء أصلاً فالأفضل عدم الاستقراض؛ لأن تحمل حقوق اللّٰہ تعالیٰ أخف من ثقل حقوق العباد۔ (غنیۃ الناسک ۳۳، ومثلہ في الدر المختار مع الشامي ۳؍۴۵۵ زکریا، خانیۃ علی الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۸۴، البحر العمیق ۱؍۳۸۶، طحطاوي علی المراقي ۳۹۷) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہپہلے قرض ادا کرے یا حج کرے؟ سوال(۳۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کسی شخص کے اوپر قرض ہے اور وہ حج کرنا چاہتا ہے، تو کیا اس کا حج ادا ہوجائے گا یا نہیں؟ اگر ادا ہوگا تو حج اسلام ادا ہوگا، یاپھر پہلے اس کو قرض ادا کرنا ضروری ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:مناسب یہ ہے کہ پہلے قرض ادا کرے پھر حج کوجائے؛