خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: حج بدل کرانے والا اگر مطلق اجازت دے کہ حج کی کوئی قسم بھی ادا کرو تو مامور کے لئے قران وتمتع کی بھی اجازت ہے، اگرچہ تمتع نہ کرنے میں احتیاط زیادہ ہے، اور دم قران وتمتع مامور پر واجب ہوگا آمر پر نہیں۔ ولو أطلق النیۃ عن ذکر المحجوج عنہ فلہ أن یعینہ قبل الشروع في الأعمال، وإن لم یعینہ حتی شرع في الأعمال تعذر التعیین وتحققت المخالفۃ فیقع الحج عنہ وعلیہ الضمان۔ (غنیۃ الناسک ؍۳۳۵ إدارۃ القرآن کراچي) فلو أمرہ بالحج فتمتع ولو عن الآمر فہو مخالف ضامن إجماعاً۔ (غنیۃ الناسک کراچی ۳۳۳، زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک ۲؍۴۵۵-۴۵۶) ودم القران والتمتع والجنایۃ علی الحاج إن أذن لہ الاٰمر بالقران والتمتع۔ (درمختار ۲؍۶۱۱ کراچی، ۴؍۳۲ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۳؍۱۴۱۱ھحج بدل میں تمتع کی قربانی کس طرف سے ہوگی ؟ سوال(۲۳۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حج بدل میں جب مامور حج تمتع یا قران کرے گا تو قربانی لازم ہوجائے گی، اور یہ قربانی خود مامور کے نام سے ہوگی، اور حج اس کی طرف سے ادا ہوگا جس کی طرف سے حج کرے۔ (ہدایۃ ۱؍۲۹۸، در مع الرد ۲؍۲۴۷، البحر الرائق زکریا ۳-۱۱۶) لیکن دریافت طلب امر یہ ہے کہ مامور نے قربانی اپنے نام سے کرنے کے بجائے جس کی طرف سے حج بدل کررہا ہے اس کے نام سے کی (مرحومین کے نام سے) تو ایسی صورت میں شرعی احکام کیا ہیں؟ بظاہر اس مسئلہ میں مامور سے حسب ذیل غلطیوں کا ارتکاب ہوا ہے: