خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
الزکاۃ ۳؍۱۹۰ زکریا، کذا في البحر الرائق / کتاب الزکاۃ ۲؍۳۷۰) فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۴؍۴؍ ۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہتاجر مقروض کو زکوٰۃ دینا سوال(۲۴۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص کے دو لڑکے ملازمت کرتے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں کا کافی مقروض ہے، اور اس کی دو بیٹیاں جوان گھر میں ہیں، کیا ایسے آدمی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، نیز اس کے پاس میرا قرض ہے اگر میں نیت کرلوں قرض میں سے زکوٰۃ کی رقم اسے چھوڑتا ہو ، تو کیا میری طرف سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں جب کہ یہ مقروض شخص مالک نصاب نہ ہو، یا مالک نصاب تو ہے؛ لیکن قرضہ اس سے کہیں زیادہ ہے، تو اس مقروض کو اتنی زکوٰۃ دینا درست ہے کہ اس کے ذریعہ قرضہ ادا کردے، پھر بقدر نصاب اس کے پاس باقی نہ رہے، تو اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؛ لیکن مقروض کو زکوٰۃ کی نیت کرکے قرض سے بری کرنا ادائے زکوٰۃ کے لئے کافی نہیں؛ البتہ اگر مقروض کو زکوٰۃ کی رقم دیدی جائے پھر اس سے اپنے قرض میں وصول کرلی جائے تو درست ہے۔ قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ … وَالْغَارِمِیْنَ} [التوبۃ: ۶۰] عن قبیصۃ بن مخارق … قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم … یا قبیصۃ! إن المسئلۃ لا تحل إلا لأحد ثلاثۃ: … ورجلٌ أصابتہ جائحۃٌ احتاحت مالہ فحلت لہ المسئلۃ …الخ۔ (صحیح مسلم ۱؍۳۳۴ رقم: ۱۰۴۴، بحوالہ: لمعات التنقیح