خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ہمارے نزدیک ان تینوں شکلوں میں سے تیسری شکل زیادہ مناسب اور بے غبار ہے، بہرحال ضرورت کے وقت اگر شرعی حیلہ کرکے وہ رقم مصارفِ ضروریہ میں لگائی جائے گی، تو اس کا لگانا جائز ہوگا۔ (کتاب المسائل ۲؍۲۷۳) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۶؍۲؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہکیا وکالت کے ذریعہ اہل مدارس زکوٰۃ کاتمام مصارف میں استعمال کر سکتے ہیں؟ سوال(۲۸۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدارس میں صدقاتِ واجبہ زکوٰۃ وغیرہ کی جو رقوم آتی ہیں، ان کے خرچ کے لئے مختلف حیلے اختیار کئے جاتے ہیں، تو اگر مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟ وہ طریقہ یہ ہے کہ تمام بالغ ونابالغ طلبہ مہتمم مدرسہ کو زکوٰۃ کی رقم اپنے جملہ مصارف میں خرچ کرنے کا وکیل بنادیں، پس مہتمم جس طرح طلباء کی طرف سے زکوٰۃوغیرہ صدقاتِ واجبہ پر قبضہ کرنے کا وکیل ہے (بقول حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ) اسی طرح وہ طلبہ کی جانب سے جملہ مصارف، مدرسین وملازمین کی تنخواہیں، تعمیرات، خرید کتب، لائٹ بل وغیرہ میں وکیل بن جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ داخلہ کے وقت داخلہ فارم میں ایک کالم پر کروایا جائے جس میں طالب علم مہتمم مدرسہ کو صراحۃً وکیل بناوے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح داخلہ فارم میں کالم پر کروانے سے مہتمم طلباء کی جانب سے خرچ کرنے کا وکیل بن جائے گا؟ اور کیا مہتمم کو صدقاتِ واجبہ کی رقوم مدرسہ کے اخراجات میں بلا حیلۂ تملیک صرف کرنے کا اختیار ہوگا؟ امید ہے کہ تسلی بخش جواب سے نوازیںگے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: داخلہ فارم میں توکیل نامہ لکھنے میں ہماری نظر میں دو خرابیاں