خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
اب دونوں پر دم لازم آگیا اور اب واپس بھی آچکے ہیں، تو کیا کریں اگر دم لازم ہے تو اس کی مقدار کیا ہے اور کن ایام میں ادا کریں اور کیا حدود حرم میں ہی پہنچ کر ادا کرنا ضروری ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسئولہ صورت میں ۱۲؍ ذی الحجہ کو زوال سے قبل رمی کرنے کی بنا پر آپ دونوں پر دم جنایت لازم ہوگیا ہے، اور اس دم کا حدود حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے، آپ کسی جانے والے کے بدست دونوں دموں کی قیمت بھیج دیںاور انہیں مکلف کریں کہ وہ حدود حرم میں آپ دونوں کی طرف سے ذبح کرادیں، مدرسہ صولتیہ میں بھی اس کا معقول انتظام رہتا ہے وہاں سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔ وأما في الثاني والثالث فمن الزوال (درمختار) فلا یجوز قبلہ في المشہور … فلو أخرہ عن وقتہ أي المعین لہ في کل یوم فعلیہ القضاء والجزاء۔ (زبدۃ المناسک ۲۱۲) أن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم أجمعین أیضا فہموا من فعلہ علیہ الصلاۃ والسلام أن وقت الرمي في أیام التشریق بعد الزوال، ویدل علیہ ما رواہ البخاري و أبو داؤد عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کنا نتحین، فإذا زالت الشمس رمینا، وحینئذ خلافہ یشبہ خلاف الإجماع فما یفعلہ کثیر من الناس من الرمي قبل الزوال فہنو خطأ موجب الدم، ومحل للإنکار والذم، لکونہ مخالفا لصحیح الروایۃ، ولظاہر الروایۃ وللمتون والإجماع۔ (حاشیۃ مناسک ملا علی القاري ۲۳۸، انوار مناسک ۴۸۸) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۱۰؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفااﷲ عنہ۱۱-۱۲؍ذی الحجہ کو غروبِ آفتاب کے بعد رمی کرنا سوال(۱۴۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے