خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
اہلِ مدارس زکوٰۃ لینے کے بعد صحیح مصرف پر لگانے کے خود ذمہ دار ہیں سوال(۲۸۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید کے پاس مدارس اور ادارے والے احباب آکر اپنے مدرسہ کے اخراجات اور تعمیرات کو بتلاکر یہ کہتے ہیں کہ جتنا ہوسکے تعاون کریں، اس وقت ہم اس مدرسہ کو زکوٰۃ کی رقم دے کر وضاحت بھی کردیتے ہیں، اب ہمارے دل میں یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا یہ رقم طلبہ پر خرچ ہوتی ہوگی، یا تعمیرات پر؟ ہماری ذمہ داری ہماری زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے کہاں تک ہے؟ کیا ان سفر اء کو دے دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، یا اس کے صحیح مصرف میں آنے تک ہماری ذمہ داری ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ والوں پر لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم مستحق طلبہ پر ہی خرچ کریں اور تملیک کے بغیر یہ رقم تعمیرات وغیرہ میں نہ لگائیں، اگر وہ اس کے خلاف کریں گے تو وہ خود ذمہ دار ہوںگے، دینے والا ذمہ دار نہیں ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱؍۵۳۴،۳؍۶۶) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: أتی رجل من بني تمیم إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقال: یا رسول اللّٰہ! إذا أدیت الزکاۃ إلی رسولک فقد برئت منہا إلی اللّٰہ وإلی رسولہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نعم إذا أدیت الزکاۃ إلی رسولي فقد برئت منہا لک أجرہا وإثمہا علی من بدلہا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الزکاۃ / باب الزکاۃ تتلف في یدي الساعي ۴؍۳۲۳ رقم: ۷۲۸۳، المصنف لعبد الرزاق، الزکاۃ / باب موضع الصدقۃ ۴؍۴۵ رقم: ۶۹۱۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۵؍۱۴۲۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہحیلۂ تملیک کی اجازت عام نہیں ہے سوال(۲۸۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے