خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
مدرسہ کی عشری زمین کے نصف عشر کا غلہ مدرسہ کے طلبہ کو کھلانا؟ سوال(۳۴۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدرسہ کے پاس دس بیگھہ عشری زمین ہے جب فصل پر نصف عشر نکالتے ہیں، تو کیا یہ عشر کا غلہ اپنے ہی مدرسہ کے طلبہ پر خرچ کرسکتے ہیں یا دوسری جگہ دینا ضروری ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: آج کل ہندوستان میں اکثر زمینیں غیر عشری ہیں جن میں عشر واجب نہیں ہوتا ہے؛ تاہم بالفرض اگر کسی جگہ عشری زمین کسی مدرسے کی ملکیت میں پائی جائے، تو اس کا نصف عشر مدرسہ کے مستحق طلبہ پر خرچ کرنا درست ہوگا اور مابقیہ زمین کی آمدنی حسبِ شرائط واقف مدرسہ کی ضروریات وغیرہ میں خر چ کی جائے گی۔ مصرف الزکاۃ والعشر ہو الفقیر وہو من لہ أدنیٰ شيء، ومسکین من لا شيء لہ وعامل ومکاتب ومدیون وفي سبیل اللّٰہ وابن السبیل۔ (شامي ۳؍۲۸۳ زکریا) إن العشر مصرفہ مصرف الزکاۃ۔ (شامي ۶؍۳۴۸ زکریا) ثم اعلم أن أموال بیت المال أربعۃ … الثاني الزکاۃ والعشر، ومصرفہما ما بین في باب المصرف من الزکاۃ۔ (البحر الرائق ۵؍۱۱۹ کوئٹہ) قال: وإن وضع العشر أو الزکاۃ في صنف واحد من غیر أن یأتي بہ السلطان، وسعہ ذٰلک بینہ وبین اللّٰہ تعالیٰ۔ واعلم أن مصارف العشر والزکاۃ ما یتلی في کتاب اللّٰہ عز وجل في قولہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنَ} (کتاب المبسوط للسرخسي / باب عشر الأرضین ۲؍۴۴۰ دار الفکر بیروت) مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ۔ (شامي ۶؍۵۴۹ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۱؍۱۱؍۱۴۳۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ