خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
اسے اپنی اس بیوی کے حقوق بھی ادا کرنے چاہئیں، احادیثِ طیبہ میں دو بیویوں کے درمیان برابری اور انصاف کرنے کی سخت تاکید وارد ہوئی ہے۔ عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینہما جاء یوم القیامۃ وشقہ ساقط۔ (سنن الترمذی رقم: ۱۱۴۰، سنن أبي داؤد رقم: ۲۱۳۴، مشکوٰۃ المصابیح ۲؍۲۷۹ رقم: ۳۲۳۶، مرقاۃ المفاتیح ۶؍۳۵۲ بیروت) لیکن ان تمام باتوں کے باوجود حج کو جاتے وقت زید کا اس بیوی سے اجازت لینا شرعاً ضروری نہیں ہے، اس کا حج بلاشبہ صحیح ہوجائے گا۔ ہاں اگر دوسری بیوی سے اجازت لے کر اسے خوش کردے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے۔ عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا أراد سفراً أقرع بین نسائہ، فأیہن خرج سہمہا خرج بہا معہ۔ (صحیح البخاري رقم: ۲۶۸۸، صحیح مسلم رقم: ۲۷۷۰، مرقاۃ المفاتیح ۶؍۳۴۹ رقم: ۳۲۳۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ولا قسم في السفر دفعاً للحرج فلہ السفر بمن شاء منہن، والقرعۃ أحب تطبیباً بقلوبہن۔ (درمختار ۳؍۲۰۶ کراچی، ۴؍۳۸۴ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۸؍۱۰؍۱۴۱۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہمکان بنانے کی شدید ضرورت کے باوجود نفلی حج کرنا سوال(۴۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: احقر کے پانچ بیٹے ہیں اور پانچوں علیحدہ علیحدہ رہتے ہیں، جب ان کو علیحدہ کیا گیا تھا، تو زمین مکان جو میرے پاس تھا، تقسیم کردیا گیا تھا، احقر اور اہلیہ چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں، وہ ناکارہ ہے، سارا بوجھ خرچ کا احقر پر ہے، مکان خستہ ہے۔ اب سے پہلے اس میں تقریباً پینتیس ہزار روپئے خرچ کئے، مگر کوئی سہولت نہیں بن سکی ہے، اسی مکان میں اہلیہ تقریباً پچاس بچیوں کو دینی