خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حیلۂ شرعی کے ذریعہ مدرسین کی تنخواہیں دیتے ہیں، زمین خریدتے ہیں، بلڈنگیں بنواتے ہیں، جب ان کے لئے جائز ہے تب دوسروں کے لئے عدم جواز کی وجہ کیا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے مکاتب جن میں صرف مقامی بچے پڑھتے ہوں ان میں زکوٰۃ کا مصرف نہیں پایا جاتا؛ لہٰذا وہاں زکوٰۃ کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اور بڑے مدارس میں چوںکہ دار الاقامہ کے اندر مقیم طلبہ رہتے ہیں؛ اس لئے وہاں زکوٰۃ کا مصرف پایا جاتا ہے، ان میں ضرورت کے وقت حیلۂ تملیک کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۵۴) ورکن الزکاۃ: ہو إخراج جزء من النصاب إلی اللّٰہ تعالی، وتسلیم ذلک إلیہ، یقطع المالک یدہ عنہ بتملیکہ من الفقیر وتسلیمہ إلیہ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۱۴۲ زکریا) ولا یجوز الزکاۃ إلا بقبض الفقراء۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۶ تحت رقم: ۴۱۳۶ زکریا) أخرج عبد الرزاق عن الشعبي أن شریحًا ومسروقًا کانا لا یجیزان الصدقۃ حتی تقبض۔ (المصنف لعبد الرزاق ۹؍۱۲۲ رقم: ۱۶۵۹۱) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۵؍۱۴۲۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہروٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے مدرسہ کی ملکیت ہیں یا طلبہ کی؟ سوال(۲۹۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مدرسہ میں اجتماعی طور پر طلبہ کو کھانا کھلانے کی صورت میں روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے مدرسہ کی ملکیت ہیں یا طلبہ کی؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مدرسہ کی طرف سے بطور اِباحت طلبہ کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور انہیں مالک نہیں بنایا جاتا، تو ایسی صورت میں روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے مدرسہ کی ملک