خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وکذا لزوجتہ وزوجہا۔ (شامي / مطب في أحکام المعتوہ ۳؍۱۷۳ زکریا) ولا یعطي زوجتہ بلا خلاف بین أصحابنا وکذا لا تعطي المرأۃ زوجہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ علیہ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۷ رقم: ۴۱۳۸ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۳؍۱۴۲۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہزکوٰۃ کا پیسہ بہن، بھائی ،بیوی، شوہر وغیرہ کو دینا؟ سوال(۲۱۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ کا پیسہ بہن کو یا بہن بھائی کو دے سکتی ہے یا دادا دادی کو ہم دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر کسی کی بیوی مال دار ہے اور شوہر بہت غریب ہے تو بیوی شوہر کو زکوٰۃ دے سکتی ہے یا نہیں؟ یا دینی اجتماع کے لئے وہاں ضروریات کا سامان جیسے مولوی صاحب کے لئے کرسی یا بچھانے کی چٹائی وغیرہ زکوٰۃ کے پیسہ سے منگا سکتے ہیں یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کا پیسہ بھائی بہن کو دے سکتے ہیں، دادا دادی کو دینا درست نہیں ہے، اسی طرح بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ ولا یدفع إلی أصلہ وإن علا وفرعہ وإن سفل، کذا في الکافي، ولا یدفع إلی امرأتہ للاشتراک في المنافع ولا تدفع المرأۃ إلی زوجہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸-۱۸۹) ولا یعطي زوجتہ بلا خلاف بین أصحابنا وکذا لا تعطي المرأۃ زوجہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ علیہ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۳؍۲۰۷ رقم: ۴۱۳۸ زکریا) ولا یجوز دفع الزکاۃ والعشر إلی الزوج ولا إلی الزوجۃ، ویجوز إلی الأخ والأخت والعم والخال۔ (الفتاویٰ السراجیۃ / باب مواضع الزکاۃ ۵۳ دار العلوم زکریا أفریقیۃ)