خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
لأنہا استئجار ببعض ما یخرج من عملہ فتکون بمعناہ، وقد نہی عنہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو أن یستأجر رجلا لیطحن لہ کذا من الحنطۃ بقفیز من دقیقہا۔ (شامي، کتاب المزارعۃ ۹؍۳۹۸ زکریا، شامي ۶؍۲۷۵ کراچی) لو ہلک المال في ید العامل سقط حقہ وأجزی عن الزکاۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۱۹۹ رقم: ۴۱۲۴ زکریا، الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۸، أحسن الفتاوی ۶؍۴۶۷) فقط واﷲ تعالی اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۱۱؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہزکوٰۃ کی رقم سے چندہ کنندگان کا اپنی تنخواہ وصول کرنا؟ سوال(۲۹۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے علاقہ میں چند مدارس ایسے ہیں، جن میں قانون ہے کہ اساتذہ اپنی اپنی تنخواہ چندہ کرکے لیں گے مدرسہ کی طرف سے نہیں دی جائے گی۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مدرسہ میں جمع نہیں ہوپاتی کہ اساتذہ سفر میں یا اپنے گھر کی ضرورتوں میں خرچ کرڈالتے ہیں، تو کیا یہ صورت جائز ہے؟ زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ جب کہ وہ اساتذہ اور چندہ کرنے والے غریب اور شرعاً زکوٰۃ کے مستحق بھی ہیں؟ بصورتِ دیگر جواز کی شکل بھی تحریر فرمائی جائے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ فقیر اور مستحق کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنایا جائے۔ بریں بنا مذکورہ صورت میں اساتذہ کا چندہ کرکے زکوٰۃ کی رقم مہتمم یا ذمہ دارِ مدرسہ کے حوالہ کئے بغیر اپنی ضروریات میں استعمال کرنا اور اس سے اپنی تنخواہ وصول کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہوں؟ اور اگر یہ رقم براہِ راست استعمال کرلی یا اس سے تنخواہ کے بقدر روپئے الگ کرلئے، تو خرچ کرنے والا اس کا ضامن ہوگا، اور اتنی رقم مدرسہ میں جمع کرانی ہوگی، اور مدرسہ میں جمع کرانے کے بعد انجام کار زکوٰۃ ادا کرنے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ (احسن الفتاویٰ ۲؍۲۵۲)