خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
چاہئے، بعد میں اگر اﷲ تعالیٰ وسعت دے تو والدین کو بھی حج کرادے تو مستحق اجر وثواب ہوگا۔ ولا تثبت الاستطاعۃ بالعاریۃ والإباحۃ، فلو بذل الابن لأبیہ الطاعۃ وأباح لہ الزاد والراحلۃ لا یجب علیہ الحج، وکذا لو وہب مالاً لیحج بہ لا یجب علیہ قبولہ۔ (غنیۃ الناسک ۲۱، ومثلہ في البحر الرائق ۲؍۵۴۸ زکریا) إن القدرۃ علی الزاد والراحلۃ لابد فیہا من الملک دون الإباحۃ والعاریۃ۔ (شامي ۳؍۴۶۰ زکریا) ومنہا القدرۃ علی الزاد والراحلۃ بطریق الملک أو الإجارۃ دون الإعارۃ والإباحۃ سواء کانت الاباحۃ من جہۃ من لا منۃ لہ علیہ کالوالدین، والمولودین أو من غیرہم کالأجانب، کذا في السراج الوہاج۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۷) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۴؍۱۱؍۱۴۲۵ھاپنی کمائی سے والدین کو حج کرانا فرض ہو گا یا نفل؟ سوال(۲۰۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص کا ایک بیٹا ہے جو کماتا ہے وہ اگر اپنی کمائی سے والدین کو حج کرائے تو والدین کی طرف سے وہ حج حج فرض ادا ہوگا یاحج نفل ادا ہوگا؟ بیٹا جو والدین کو حج کراتا ہے وہ اگر حج نفل ادا ہوگا تو آگے چل کر اگر والدین مال دار ہوجائیں جس سے وہ حج کرکے آسکتے ہیں ، تو کیا وہ کیا ہوا حج نفل فرض کے لئے متبادل بنے گا یانہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیٹا اگر اپنی کمائی سے والدین کو حج کرائے اور والدین حج فرض کی نیت کریں، تو ان کا فرض حج ادا ہوجائے گا، حتیٰ کہ اگر والدین بعد میں صاحب استطاعت ہوجائیں، تو انہیں دوبارہ حج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ومنہا القدرۃ علی الزاد والراحلۃ بطریق الملک أو الإجارۃ دون الإعارۃ