خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
اس کی اطلاع بذریعہ رسید دے دی، تو کیا وہیں سے حج بدل کرایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ یا وطن سے ہی حج بدل کا سفر کرنا ضروری ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مال کی وسعت ہوتے ہوئے یہ طریقہ اختیار کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اس سے حج فرض جبھی ساقط ہوگا جب کہ میت نے خود وہاں سے حج کرانے کی وصیت کی ہو۔ ولو عین مکانا غیر بلدہ فکما أوصٰی قرب من مکۃ أو بعد۔ (غنیۃ الناسک ۳۲۹ إدارۃ القرآن کراچی) وإن أوصیٰ أن یحج عنہ من موضع کذا من غیربلدہ یحج عنہ من ثلث مالہ من ذٰلک الموضع الذي بین قرب من مکۃ أو بعد عنہا؛ لأن الإحجاج لایجوز إلا بأمرہ فیتقدر بقدر أمرہ۔ (بدائع الصنائع ۲؍۲۲۳ قدیم، ۳؍۲۹۴ بیروت) فلو أحج الوصي من غیر ما وجب الإحجاج منہ یضمن؛ لأنہ خالف و یکون الحج لہ و یحج عن المیت ثانیا۔ (غنیۃ الناسک ۳۲۹ جدید، کذا في الزبدۃ ۲؍۴۵۲) اور جو صاحبِ استطاعت شخص ہندوستان میں مقیم ہو اور بیماری یا کمزوری کی وجہ سے حج کرنے سے عاجز ہو جائے تو اس کے خرچ سے اس کے وطن سے حج بدل کرانا ضروری ہے۔ فمن عجز عن الحج بنفسہ وجب علیہ أن یستنیب غیرہ لیحج عنہ ویصح الحج عنہ بشروط … و إن لم یعین وجب أن یحج عنہ من بلدہ إن کان ثلث مالہ یکفي۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ۱؍۷۰۹-۷۰۷) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۱۰؍۱۴۱۱ھحج بدل اپنے ذاتی پیسہ سے کرنا سوال(۲۲۳):-کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے