خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
میں کہ: حیلۂ تملیک کی اجازت عام ہے یا بدرجہ ضرورت ومجبوری ہے؟ اگر بصورتِ ضرورت ومجبوری ہے تو اس کی وضاحت فرمادیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: حیلۂ تملیک کی اجازت عام نہیں ہے؛ بلکہ صرف اسی وقت ہے جب کہ اس کے بغیر ادارہ چلانا ممکن نہ رہے۔ (کتاب المسائل ۲؍۱۹۲، کفایۃ المفتی ۴؍۲۸۵) وفي العیون وفي جامع الفتاویٰ: لا یسعہ ذٰلک، وکل حیلۃ یحتال بہا الرجل لیتخلص بہا عن حرام أو لیتوصل بہا إلی حلال فہي حسنۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۰؍۳۱۳ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۱؍۱۴۳۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہمکتب کے مصارف کے لئے حیلۂ تملیک؟ سوال(۲۸۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک مکان چونکہ بوسیدہ ہے، اب اس کو مدرسہ کی نوعیت سے بنانا ہے؛ لہٰذا اس صورت میں کافی سرمایہ کی ضرورت ہے، تو اس کی تعمیر اور مدرسین کی تنخواہوں اور طالبِ علم وغیرہ کی ضرورتوں کے لئے چندہ زکوٰۃ وصدقۃ الفطر وچرم قربانی جمع کرکے علماء کے مروجہ حیلۂ تملیک کے طریقہ کے بعد مذکورہ جگہوں پر خرچ کرنا درست ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: حیلۂ تملیک کی تو ضرورت اس وقت پڑے گی جب کہ مدرسہ اور مسجد کے لئے زکوٰۃ وصدقات کے علاوہ دوسری رقومات سے چندہ نہ کیا جاسکتا ہو؛ لہٰذا پوری کوشش یہ کرنی چاہئے کہ زکوٰۃ وغیرہ کے علاوہ سے مدرسہ کی تعمیر کی جائے، اگر بالفرض کوئی صورت نہ نکل سکے، تو مجبوری میں تملیک کی اجازت دی جائے گی۔