خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ویجوز صرفہا إلی من لایحل لہ السوال إذا لم یملک نصاباً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) وتجوز دفعہا إلی من یملک أقل من النصاب، وإن کان صحیحًا مکتسباً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۹) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۱؍۱۴۱۲ھجس شخص کی آمدنی اس کے لئے ناکافی ہو اس کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۱۹۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کوئی شخص ایک ایکڑ زمین کا مالک ہے، جس کی قیمت تقریباً ایک لاکھ روپیہ ہے، جس کی دونوں فصلوں کی سالانہ آمد دس ہزار روپیہ ہے، یہ رقم اس کے اخراجات کے لئے ناکافی ہے، تو ایسے شخص کو زکوٰۃ یا فطرہ کی رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں، اور زکوٰۃ کے وجوب کے لئے جنگل کی زمین کی قیمت کا اعتبار ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، کاشت کی زمین کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ وفیہا سئل محمد عمن لہ أرض یزرعہا أو حانوت یستغلہا أو دار غلتہا ثلاثۃ آلاف، ولا تکفي لنفقتہٖ ونفقۃ عیالہ سنۃ؟ یحل لہ أخذ الزکاۃ وإن کانت قیمتہا تبلغ ألوفًا، وعلیہ الفتویٰ۔ (شامي / باب المصرف ۲؍۳۴۸، فتح القدیر / باب من یجوز دفع الصدقۃ إلیہ ومن لا یجوز ۲؍۲۷۸، البحر الرائق / باب المصرف ۲؍۲۴۴ کوئٹہ) ولا في … دور السکنیٰ ونحوہا (درمختار) أي کثیاب للبدن الغیر المحتاج إلیہا وکالحوانیت والعقارات۔ (درمختار مع الشامي / کتاب الزکاۃ ۳؍۱۸۲ زکریا)