خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حدیث طویل … إن الصدقۃ لا تنبغي لآل محمد إنما ہي أوساخ الناس۔ (صحیح مسلم ۱؍۳۴۴ رقم: ۱۰۸۲) وجازت التطوعات من الصدقات وغلۃ الأوقاف لہم أي لبني ہاشم۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۰۰ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۷؍۱؍۱۴۲۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہکیا مجبوری اور لاچاری میں سادات کیلئے زکوٰۃ لینا جائز ہے؟ سوال(۲۳۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کیا سید اور سادات کے لئے زکوٰۃ وغیرہ لینے کی گنجائش ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: سادات کو زکوٰۃ لینی کسی حال میں جائز نہیں ہے، اگر سادات ضرورت مند ہوں، تو ان کی مدد عطیات سے کرنی چاہئے۔ عن أبي جعفر قال: لا بأس بالصدقۃ من بني ہاشم بعضہم علی بعض۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ / باب ما رخص فیہ من الصدقۃ عن بني ہاشم ۷؍۶۲ رقم: ۱۰۳۸) وقول العیني: والہاشمي یجوز لہ دفع زکاتہ لمثلہ صوابہ لا یجوز۔ (درمختار مع الشامي ۳؍۲۹۹) (قولہ وبني ہاشم وموالیہم) أي لا یجوز الدفع لہم لحدیث البخاري: ’’نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ‘‘ ولحدیث أبي داؤد: مولی القوم من أنفسہم۔ (البحر الرائق ۲؍۲۴۶، بدائع الصنائع ۲؍۱۶۲، والحدیث عند أبي داؤد تحت رقم: ۱۶۵۰) أو ہاشمي أي لا یجوز دفعہا إلی بني ہاشمي، لقولہ علیہ السلام: إن ہٰذہ الصدقات إنما ہي أوساخ الناس، وإنہا لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد۔ رواہ