خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وللأعمام والأخوال الفقراء بل ہم أولیٰ لأنہ صلۃ وصدقۃ۔ (شامي ۲؍۳۴۶ کراچی، ۳؍۲۹۳ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۴؍۹؍۱۴۱۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہغریب ساس کو زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۲۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میرے خسر صاحب کے انتقال کے بعد میری ساس صاحبہ نے مجھ کو اپنی اور اپنے بچوں کی چیز بطور امانت رکھنے کو دی تھی، وہ چیز دورانِ سفر میری اٹیچی سے گم ہوگئی، ساس کے پاس ابھی ۳؍لڑکے اور ۳؍لڑکیاں شادی کے لئے باقی ہیں۔ کیا میں زکوٰۃ کے روپیہ میں سے تھوڑی تھوڑی چیز بنواکر ان کی مدد کرسکتا ہوں یا نہیں؟ اس مد میں زکوٰۃ جائز ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورتِ مسئولہ میں اگر آپ زکوٰۃ کی رقم سے اپنی غریب ساس کی مدد کریںگے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؛ لیکن یک بارگی اتنی رقم سے مدد نہ کریں کہ وہ مالکِ نصاب بن جائیں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن أم کلثوم بن عقبۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أفضل الصدقۃ علی ذي الرحم الکاشح۔ (شعبۃ الإیمان للبیہقي ۳؍۲۳۹) ویجوز دفعہا إلی من یملک أقل من ذٰلک، وإن کان صحیحاً مکتسباً؛ لأنہ فقیر، والفقراء ہم المصارف۔ (ہدایۃ ۱؍۲۰۷) ویکرہ أن یدفع إلی رجل مأتي درہم فصاعداً وإن دفعہ جاز، کذا في الہدایۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۱؍۹؍۱۴۱۳ھ