خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کیا نفلی حج بدل میں شرائط بدل کی رعایت ضروری ہے؟ سوال(۲۰۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی اپنی طرف سے دوسرے شخص کے ذریعہ نفلی حج کروانا چاہے خواہ اس نے اپنا حج فرض کیا ہو یا نہ کیا ہو، تو اس کے لئے وہی شرائط ہوں گے جو حج فرض کرانے میں مامور کے لئے آمر کی طرف سے اور آمر کے لئے مامور کے حق میں پائے جانے ضروری ہوتے ہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص نفلی طور پر کسی زندہ یا مردہ کی طرف سے حج بدل کرے یا کرائے، تواس میں وطن سے جانے آنے یا کسی خاص جگہ سے حج کرنے یا آمر کے عاجز ہونے یا نہ ہونے وغیرہ کی کوئی قید نہیں ہے؛ بلکہ بلا کسی شرط کے مطلقاً یہ حج درست ہوجائے گا، اب اگر آمر نے اسے نفلی حج کرنے کا حکم دیا ہے تو سفر اسی کے خرچ پر ہوگا اور حج اسی کی جانب سے ہوگا، اور اگر آمر نے حکم نہیں دیا؛ بلکہ کوئی شخص اپنی مرضی سے دوسرے کو نفلی حج کا ثواب پہنچانا چاہتا ہے تو یہ حج دراصل کرنے والے ہی کی طرف سے ہوگا؛ البتہ ارکان کی ادائیگی کے بعد وہ اس کا ثواب دوسرے کو پہنچاسکتا ہے۔ وإن کانت نافلۃ کحج النفل وعمرۃ التطوع تجزئ في الحالتین ولا یشترط فیہ العجز، ولا غیرہ مما یشترط في حج الفرض وعمرۃ الإسلام إلا أہلیۃ النائب بالإسلام والعقل والتمییز والنیۃ عنہ في الإحرام إن أمرہ بالحج، وإلا فجعل ثوابہ لہ بعد الأداء الخ۔ (غنیۃ الناسک ۳۲۰) أما حج التطوع فتجوز الإنابۃ فیہ حالۃ القدرۃ؛ لأن باب النفل أوسع حتی إن صحیح البدن لو احد رجلاً بمالہ علی سبیل التطوع عنہ یجوز۔ (البحر العمیق ۲۲۵۸، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۵۷) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۴؍۱۱؍۱۴۱۳ھ