خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃ فلا یصرف إلی بناء نحو مسجد ولا إلی کفن میت وقضاء دینہ۔ (الدر المختار ۳؍۲۹۱ زکریا) وقدمنا أن الحیلۃ أن یتصدق علی الفقیر ثم یأمرہ بفعل ہٰذہ الأشیاء۔ (الدر المختار ۳؍۲۹۳ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۳؍۵؍۱۴۲۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہجن مکاتب کے مصارف عطیات سے پورے نہ ہوتے ہوں اُن میں صدقاتِ واجبہ یا زکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۶۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جس مکتب کے مصارف عطیات وغیرہ (علاوہ صدقاتِ واجبہ) کی رقومات سے پورے ہوجاتے ہوں، ایسے مدرسہ کے ذمہ داران کے لئے صدقاتِ واجبہ کی رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو ان کا مصرف نہ ہونے کی وجہ سے استعمال کا کیا طریقہ ہوگا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن مکاتب میں صدقاتِ واجبہ کا مصرف نہیں ہے، اُن کے لئے صدقاتِ واجبہ لینا جائز نہیں ہے، صرف امداد وعطیات پر ہی اکتفاء کرنا چاہئے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من سألکم باللّٰہ فأعطوہ … الخ۔ (السنن الکبریٰ ۴؍۳۳۴ رقم: ۷۸۹۰ بیروت) عن فاطمۃ بنت قیس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن في المال حقًا سوی الزکاۃ۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۴۳) وفي روایۃ: أنہا سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أ في المال حق