خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وفیہ معنی القمار؛ لأن التملیک لا یحتمل التعلیق لإفضائہ إلی معنی القمار۔ (کذا في البنایۃ في شرح الہدایۃ / باب البیع الفاسد ۸؍۱۵۸ نعیمیہ دیوبند) ویجتہد في تحصیل نفقۃ حلال، فإنہ لا یقبل بالنفقۃ الحرام، کما ورد في الحدیث مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا و لا تنافي بین سقوطہ وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول، ولا یعاقب عقاب تارک الحج۔ (شامي، کتاب الحج / مطلب: فیمن حج بمال حرام ۲؍۴۵۶ کراچی، ۳؍۴۵۳ زکریا، الفتاوی الہندیۃ ۱؍۲۲۰) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۱۰؍۱۴۱۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہکم پیسوں میں حج کرنے کی نیت سے خدام الحجاج کی معیت میں حج کرنا؟ سوال(۱۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جو لوگ خدام کی حیثیت سے ملک عرب مکہ ومدینہ جاتے ہیں، اور ایجنٹ کے ذریعہ جاتے ہیں، اور ان خدام حجاج سے ایجنٹ کرایہ اور محنت ورسائی کے اعتبار سے تقریباً چالیس ہزار روپیہ وصول کرتے ہیں، کیا اس طریقہ سے خدامِ حجاج کا جانا درست ہے یا نہیں؟ خدام کا کہنا یہ ہے کہ ہم کم پیسوں میں حج اور عمرہ ادا کرلیں، دل میں خلوصِ نیت بھی ہے، کیا یہ دینی کام اس طریقہ سے کرنا جائز اور درست ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر ایجنٹ یہ کہتا ہے کہ میں خدام الحجاج کو بھیجنے، ویزا لگوانے اور ٹکٹ وغیرہ کا انتظام کروانے کی محنت کے عوض میں متعین طور پر چالیس ہزار روپیہ لوںگا، تو یہ عقد اجارہ ہے جو شرعاً جائز ہے؛ لہٰذا خدام الحجاج کے نام پر اس طرح حجاز مقدس جانا شرعاً درست ہے۔