خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:سفر حج محرم یاشوہر کے ساتھ ہی کرنا چاہئے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ابھی آپ اپنی والدہ کو حج نہ کرائیں؛ بلکہ جب آپ کے پاس استطاعت ہوجائے تو آپ اپنے ساتھ حج کو لے جائیں؛ تاہم اگر وہ اس بڑھاپے میں اپنے جیٹھ کے لڑکے کے ساتھ حج کو جائیںگی تو بھی ان کا حج ادا ہوجائے گا۔ ومع زوج أو محرم قال الشامي: والمحرم من لایجوز لہ مناکحتہا علی التابید بقرابۃ أو رضاع أو صہریۃ۔ (درمختار مع الشامي ۴؍۴۶۴ زکریا، امداد الفتاوی ۲؍۲۰۱) لا بأس للمرأۃ أن تسافر بغیر محرم مع الصالحین۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۶۶) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۴؍۳؍۱۴۲۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ۷۰؍ سال کی بیوہ خاتون کا بہن اور بہنوئی کے ساتھ حج کرنا؟ سوال(۲۵۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک خاتون بیوہ ہیں، جن کی عمر تقریباً ستر سال ہے، اپنی سگی بہن بہنوئی کے ساتھ حج کو جانا چاہتی ہیں، بہنوئی کی عمر بھی ستر کے قریب ہے، کیا ان کے ہمراہ حج کرنے جاسکتی ہیں؟ بہن کی عمر تقریباً ۶۵ ؍سال ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:ستر سال کی عورت کے لئے اپنی ہمشیرہ اور بہنوئی کے ساتھ سفر حج میں جانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ (مستفاد: ایضاح المناسک ۶۴) لا بأس للمرأۃ أن تسافر بغیر محرم مع الصالحین۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۶۶)