خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
۲؍۵۵۲ زکریا، غنیۃ الناسک ۵۷) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۱؍۱۴۳۶ھجدہ اور میقات سے متعلق صاحبِ فتاویٰ کی ایک تحقیق نوٹ:ـ- موضوع کی مناسبت سے قارئین کے افادہ کے لئے میقات کے بارے میں ضروری معلومات حضرت الاستاذ کی تالیف ’’کتاب المسائل‘‘ کے حوالہ سے ذیل میں درج ہیں۔ ( مرتب)میقاتِ زمانی : حج کے مناسک کی ادائیگی کے لئے شرعاً ایک وقت مقرر ہے، جس کو ’’میقاتِ زمانی‘‘ کہا جاتا ہے، یہ شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ اس وقت سے پہلے حج کا کوئی عمل مثلاً طوافِ زیارت یا سعی وغیرہ ادا کرنا معتبر نہیں ہے، اور حج کا احرام باندھنا بھی ان مہینوں سے پہلے مکروہِ تحریمی ہے؛ اس لئے شوال کا مہینہ شروع ہونے کے بعد ہی حج کے اعمال کا آغاز کرنا چاہئے۔ وأما المیقات الزماني فأشہر الحج، وہي: شوال وذو القعدۃ وعشر من ذي الحجۃ، کما روي عن العبادلۃ الثلاثۃ۔ (غنیۃ الناسک ۴۹، درمختار ۳؍۴۷۴ زکریا) وفائدۃ التوقیت بہا ابتداء اً أنہ لو فعل شیئاً من أفعال الحج قبلہا لا یجزیہ۔ (غنیۃ الناسک ۴۹، درمختار ۳؍۴۷۴، ومثلہ في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۱۶، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۸۶) وحتی لو أحرم بہ قبلہا یکرہ تحریماً مطلقاً۔ (غنیۃ الناسک ۴۹، درمختار ۳؍۴۷۴ زکریا)میقاتِ مکانی جس طرح مناسک حج کی ادائیگی کے لئے وقت متعین ہے، اسی طرح جگہیں بھی متعین ہیں جن کو ’’میقاتِ مکانی‘‘ کہا جاتا ہے، اس اعتبار سے ساری دنیا درج ذیل تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے: وأما المیقات المکاني فیختلف باختلاف الناس فإنہم في حق المواقیت