خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حرج نہیں ہے۔ وأما سننہ فمنہا أن یوالي بین الطواف والسعي فلو فصل بینہما بوقت، ولو طویلاً، فقد ترک السنۃ ولیس علیہ جزاء۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ۱؍۶۵۹، غنیۃ الناسک ۱۲۸، البحر الرائق ۳؍۳۳۲، شامي ۳؍۵۱۴ زکریا) نوٹ:- طواف وسعی کے درمیان فصل اسی وقت مضر نہیں جب کہ ان کے درمیان کوئی رکن نہ پایا جائے، اگر کوئی رکن پایا جائے تو اتصال کا حکم ساقط ہوجائے گا، اور ازسر نو طواف کرنا پڑے گا، مثال کے طور پر کسی شخص نے طوافِ قدوم کیا اس کے بعد وقوف عرفہ کرلیا تو اب وہ طواف کے بغیر حج کی سعی نہیں کرسکتا؛ بلکہ طواف کرنا پڑے گا اس کے بعد ہی حج کی سعی معتبر ہوگی۔ لکن یشترط أن لا یتخلل بینہما رکن، فلو طاف للقدوم ولم یسع ثم وقف بعرفۃ، ثم أراد أن یسعی بعد طواف القدوم، لم یجز ذٰلک؛ بل یسعی بعد طواف الإفاضۃ۔ (غنیۃ الناسک ۱۲۸ إدارۃالقران کراچی، البحر العمیق ۳؍۱۲۹۴) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری ۴؍۳؍۱۴۳۶ھ الجواب صحیح :شبیر احمد عفا اللہ عنہطواف یا سعی کے چکروں میں شک ہو تو کیا کرے؟ سوال(۱۳۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر حاجی کو طواف یا سعی کرتے ہوئیے چکروںکی تعداد میں شک ہو جائے تواقل پر بنا کرے یا اکثر پر؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سعی کے چکروں میں شک ہوجائے تو کم مقدار پر عمل کرے، یہ اس وقت ہے جب کہ طواف یا سعی کے شروع یا درمیان میں شک واقع ہوا ہو، اگر طواف یا سعی سے فارغ ہونے کے بعد شک واقع ہوجائے تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔