خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
تملیک فیہ، وإن أرید الصرف إلی ہٰذہ الوجوہ صرف إلی فقیر، ثم یأمر بالصرف إلیہا فیثاب المزکی والفقیر۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۲۲ دار إحیاء التراث بیروت) وقدمنا أن الحیلۃ أن یتصدق علی الفقیر ثم یأمرہ بفعل ہٰذہ الأشیاء وہل لہ أن یخالف أمرہ لم أرہ والظاہر نعم۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۲۴۵) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۷؍۲؍۱۴۱۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہمدرسہ کے طلبہ پر زکوٰۃ کا پیسہ خرچ کرنا؟ سوال(۲۸۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دینی مدارس میں علم دین حاصل کرنے والے باہر کے غریب طلبہ پر زکوٰۃ، چرم قربانی اور صدقۃ الفطر کی رقم کس طرح استعمال کی جائے؟ استعمال کا جائز اور آسان طریقہ کیا ہے؟ جوکہ کھانے وغیرہ میں بھی چل سکے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ رقم مستحقین طلبہ کے لئے وظائف مقرر کرنے، کپڑے بنادینے اور روزانہ کھانا کھلانے میں استعمال کی جاسکتی ہے، اس کے لئے احتیاط کے ساتھ جو بھی نظام بن سکے، بنالیا جائے؛ البتہ اس کا خیال رکھیں کہ جو چیز بھی طلبہ کو دی جائے وہ بطور تملیک ہو؛ اس لئے کہ زکوٰۃ کی صحت کے لئے مستحق کا زکوٰۃ پر پوری طرح قبضہ کرلینا ضروری ہے۔ قال القدوري في کتابہ: ولا یجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہا الفقیر۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۲ زکریا) ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃ۔ (شامي ۳؍۲۶۳ بیروت،الفتاوی الہندیۃ۱؍۱۹۰دار الفکر بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۳؍۱۱؍۱۴۱۳ھ