خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
یقصلہ المشتري فقصلہ، فالعشر علی البائع، وإن کان البیع مطلقًا من غیر شرط وترک الزرع حتی أدرک، فإن کان الترک بغیر أجر ذکر في الأصل أن العشر علی المشتري ولم یذکر فیہ خلافاً۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۸۳ رقم: ۴۳۸۵) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۷؍۱۴۱۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہعشری زمین خریدنے پرمشتری پر ہی عشرواجب ہوگا سوال(۳۳۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آج کل عام طور سے سنترے اور آموں کی فصلیں مالکان باغ پیشگی فروخت کردیتے ہیں، اس صورت میں عشر مالکانِ باغ پر ہوگا یا خریدار پر؟ اور مشتری اس نے جو رقم باغ کے مالک کو دی ہے، اس کو عشر میں سے وضع کیا جائے گا یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں عشر خریدار پر واجب ہوگا اور جو رقم اس نے مالک کو دی ہے اسے وضع نہیں کیا جائے گا۔ ولو باع الزرع إن قبل إدراکہ فالعشر علی المشتري (درمختار) وفي الشامي: وشمل ما إذا باعہ وترکہ المشتري بإذن البائع حتی أدرک فعندہما عشرہ علی المشتري۔ (شامي ۲؍۳۳۳ کراچی، درمختار مع الشامي ۳؍۲۷۶ زکریا) رجل لہ أرض عشریۃ فیہا نخل وفي النخل طلع باع ذٰلک کلہ بما في النخل من الثمر، قال أبوحنیفۃ: العشر علی المشتري الذي یدرک ذٰلک في یدہ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۸۴ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۰؍۷؍۱۴۱۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ