خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
حاجی کی طرف سے اہل خانہ کا قربانی کرنا؟ سوال(۱۹۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص حج کرنے کو گیا ہے اور وہاں جاکر اس کو قربانی بھی کرنی ہے، اور اس شخص کے گھر پر بھی قربانی ہوتی ہے، اگر قربانی اسی کے گھر پر ہوجائے اور حج کے دوران وہ شخص قربانی وہاں نہ کرے تو اس کا حج جائز ہوگا یا کہ نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:تمتع اور قران کرنے والے پر جو قربانی بطور شکر واجب ہوتی ہے، اس کو حدود حرم میں کرنا لازم ہے، حدود حرم کے باہر اپنے گھر پر قربانی کرنے سے حج والی قربانی ادا نہ ہوگی، البتہ جو حاجی ایام حج میں مقیم اور مال دار ہو اس کے لئے اپنی مالی قربانی کہیں بھی کرنا جائز ہے، خواہ حدود حرم میں ہو یا اپنے گھر پر اس قربانی کا حج کی قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ عن جابر رضي اللّٰہ قال: ثم قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قد نحرت ہٰہنا ومنی کلہا فنحر۔ (سنن أبی داؤد / باب صفۃ حجۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم رقم: ۱۹۰۷) وخص ذبح الکل بالحرم۔ (کنز الدقائق مع البحر ۳؍۱۲۸ زکریا) ویختص بالمکان وہو الحرم والزمان وہو أیام النحر۔ (شامي / باب القران أفضل ۳؍۵۵۷ زکریا) ہدي القارن والمتمتع ہو واجب شکرا علی اطلاق الارتفاق بالعمرۃ فی وقت الحج فإنہ أرفق وعلی توفیقہ لأداء النسکین في أشہر الحج بسفر واحد … ویختص ذبحہ بالمکان وہو الحرام … وبالزمان وہو أیام النحر حتی لو ذبح قبلہا لم یجزہ بالإجماع۔ (غنیۃ الناسک / باب القران ۲۰۶-۲۰۷ إدارۃ القرآن کراچی) وأما الأضحیۃ فإن کان مسافراً فلا یجب علیہ، وإلا فکالمکی فتجب۔ (غنیۃ الناسک ۱۷۲ إدارۃ القرآن کراچی)