خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
جس کھیت کی پیداوار سیلاب کی زد میں آجائے اس کا عشر کس طرح نکالیں؟ سوال(۳۳۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید کی زمین زرخیز نہیں ہے، اکثر سیلاب کی زد میں آجاتی ہے، پیداوار سے زیادہ اس میں لاگت ہوجاتی ہے، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پوری کھیتی سیلاب کی نذر ہوجاتی ہے، اور پھر دوبارہ لاگت لگاکر کھیتی کرنی پڑتی ہے، ان کھیتوں کا سرکار کو سالانہ بیگھہ کے حساب سے ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے، تو دریافت یہ کرنا ہے کہ ہم اس کھیت کا عشر نکالیں تو کس حساب سے نکالیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں نہ عشری ہیں اور نہ خراجی، اس لئے ان کی آمدنی پر عشر یا خراج کچھ واجب نہ ہوگا؛ بلکہ حسبِ ضابطہ اگر مالک صاحبِ نصاب ہے تواس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اور اگر پوری کھیتی سیلاب کی نذر ہوجائے یا پیداوار سے زیادہ اس میں لاگت لگ جائے تو ایسی صورت میں اس زمین پر کچھ بھی واجب نہ ہوگا۔ (مستفاد: ایضاح النوادر ۲؍۱۷، فتاویٰ محمودیہ ۹؍۵۵-۴۵۴ ڈابھیل) قال الحسن: وأما أراضیہم فعلیہا الخراج … وإن عجزوا عن ذٰلک خفف عنہم ولا یکلفون فوق طاقتہم کما قال عمر رضي اللّٰہ عنہ۔ (إعلاء السنن ۱۲؍۴۳۷ رقم: ۴۱۰۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت) عن عطاء في الرجل إذا أخرج زکاۃ مالہ فضاعت أنہا تجزئ عنہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۲؍۴۰۸ رقم: ۱۰۴۹۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت) مستفاد: وإن غلب علی أرض الخراج الماء أو انقطع عنہا أو اصطلم الزرع آفۃ فلا خراج علیہم۔ (القدوري مع الشرح الثمیري ۴؍۳۰۴)