خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
کیا متمتع یا قارن پرمالی قربانی بھی واجب ہے؟ سوال(۱۹۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا متمتع یا قارن حاجی پر تمتع اور قران کی قربانی (دم شکر) کے ساتھ ساتھ مالی قربانی -جو عید الادضحی میں صاحب حیثیت صاحب نصاب شخص پر واجب ہوتی ہے-بھی واجب ہو گی یا نہیں؟ اگر حاجی کے پاس کرایہ اور حج کے دیگر اخراجات کاٹ کر اتنی رقم بچ جائے کہ اس سے وہ بآسانی عید الاضحی والی مالی قربانی کرسکتا ہے پھر وہ قربانی نہ کرسکا اور ایام نحر گذر گئے تو ایسے شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ نیز مالی قربانی کابھی حدود حرم ہی میں کرانا ضروری ہے یا حاجی کے گھر والے بھی اس کے وطن میں کرسکتے ہیں؟ اور حاجی ان سے کراسکتا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص ایام حج میں مقیم ہو اور صاحب حیثیت بھی ہو، اس پر حج کی قربانی (بشرطیکہ تمتع یا قران کیا ہو) کے ساتھ ساتھ مالی قربانی کرنا بھی واجب ہے، اور یہ مالی قربانی وہ اپنے وطن میں بھی کراسکتا ہے، حدود حرم میں کرانا لازم نہیں، پھر اگر اس نے مالی قربانی چھوڑ دی ہے تو قربانی کا وقت گذرنے کے بعد اس پر ایک بکری کی قیمت صدقہ کرنی لازم ہے۔ عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمی جمرۃ العقبۃ ثم انصرف إلی البدن فنحرہا … الخ۔ (صحیح مسلم ۱؍۴۲۱ رقم: ۱۳۰۵، سنن أبي داؤد ۱؍۲۷۲ رقم: ۱۹۸۱) أخرج عبد الرزاق عن ابراہیم قال: رخص للحاج والمسافر في أن لا یضحی وقال أیضا کانوا إذا شہدوا ضحوا و إذا سافروا لم یضحوا۔ (مصنف عبد الرزاق ۴؍۳۸۲ رقم: ۸۱۴۲-۸۱۴۴) وأنہا تجري فیہا النیابۃ فیجوز للإنسان أن یضحی بنفسہ أو بغیرہ؛ لأنہا قربۃ تتعلق بالمال فتجري فیہا النیابۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۲۹۴)