خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
تیرا خرچہ حرام ہے، تیرا حج معصیت ہے، مبرور نہیں ہے۔ وروي عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا خرج الحاج حاجاً بنفقۃٍ طیبۃٍ ووضع رجلہ في الغرز فنادی: لبیک اللّٰہم لبیک۔ ناداہ مناد من السماء: لبیک وسعدیک، زادک حلال، وراحلتک حلال، وحجک مبرور غیر مأزور، وإذا خرج بالنفقۃ الخبیثۃ فوضع رجلہ في الغرز، فنادی: لبیک۔ ناداہ مناد من السماء لا لبیک ولا سعدیک زادک حرام، ونفقتک حرام، وحجک مأزور غیر مبرور۔ (رواہ الطبراني في الأوسط، الترغیب والترہیب مکمل ۲۶۴ رقم: ۱۷۴۸) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۹؍۱۱؍۱۴۱۳ھسودی قرض سے کئے گئے کاروبار کی آمدنی سے حج کرنا؟ سوال(۵۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید بینک سے قرض بصورت لون لیتا ہے اور کاروبار بھی کرتا ہے، اسی روپیہ سے زید صاحبِ نصاب ہوگیا اور اس پر حج فرض ہوگیا، تو زید کو اس بینک والے روپیہ سے جو آمدنی ہوئی ہے، اس سے حج کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور یہ قرض لینا کسی شکل میں جائز ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ اس قرض کی ادائیگی اگر کریں تو زائد رقم بینک کو دینی پڑتی ہے جو سود کی شکل ہے۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:بینک کو سود دینا جائز نہیں ہے اور چوںکہ بینک سے لئے ہوئے قرض میں سود دینالازمی ہوتا ہے، اس لئے بلاشدید ضرورت کے بینک سے قرض لینا بھی ممنوع ہے؛ لیکن جو روپیہ بینک سے لیا ہے اس سے کئے گئے کاروبار کی آمدنی حلال ہوتی ہے؛ اس لئے کہ اس میں سود کی رقم کی ملاوٹ نہیں ہے، سودی رقم تو وہ ہے جو بینک کو دی جائے گی؛ لہٰذا