خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
دوسرے بعض سے اتمام کا حکم لگتا ہو، تو وہاں پر بعض ائمہ نے احتیاطاً اتمام کو ترجیح دی ہے۔ اب قابل تحقیق امر یہ ہے کہ کیا زیر بحث مسئلہ میں بھی اتمام کو ترجیح دی جاسکتی ہے؟ علماء کے اس اختلاف کی وجہ سے کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ سابق حکم (قصر) مشکوک ہوگیا؟ یا ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ پر عمل کرتے ہوئے ’’قصر‘‘ پر ہی عمل درآمد بہتر ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: موجودہ صورتِ حال میں منی کو شہر مکہ کے تابع مانا جانے یا نہ مانا جائے یہ ایک اجتہادی معاملہ ہے منصوص معاملہ نہیں ہے اور کسی اجتہادی مسئلہ میں اگر اختلاف کی وجہ سے قصر واتمام سے متعلق رائیں الگ الگ ہو جائیں تو احتیاط اسی میں ہے کہ اتمام کیا جائے تاکہ یقینی طور پر فریضہ ادا ہو جائے، لیکن اگر کسی کو یقین کی حد تک اطمینان ہو کہ منی کبھی بھی مکہ معظمہ کے تابع نہیں ہو سکتا تو وہ اپنی تحقیق پر عمل کر سکتا ہے لیکن دوسرے کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ۱:- لأنہ اجتمع في ہذہ الصلاۃ ما یو جب الأربع وما یمنع فرجحنا ما یرجب الأربع احتیاطاً۔ (شامي ۲؍۶۰۱ زکریا، البحر الرائق ۲؍۱۲۹ کوئٹہ، ۲؍۲۲۷ زکریا) ۲:- وفي الو لوالجیۃ: افتتح الصلاۃ في السفینۃ حال إقامتہ في طرف البحر فنقلتہا الریح وہو في السفینۃ فنوی السفر یتم صلاۃ المقیم عند أبي یوسفؒ۔ وفي الحجۃ، الفتوی علی قول أبي یوسفؒ احتیاطاً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۴۴) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۵؍۱۴۳۵ھقیام مکہ کے دوران تفریح کے لئے جدہ جانے کی وجہ سے قصر و اتمام کا حکم؟ سوال(۱۷۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے