خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وہاں نہ طلبہ نہ تعلیم اور نہ ہی مدرسین کا نظم ہوسکا ہو، تو کیا ایسے مدرسہ کے لئے زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کا وصول کرنا جائز ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مدرسہ کا ابھی صرف کاغذی وجود ہو، اس کے لئے صدقہ خیرات کی رقم جمع کرنا درست نہیں؛ بلکہ صرف نفلی عطایا وصول کرکے منصوبہ کی تکمیل کی جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ ۱۳؍ ۹۹، فتاوی رحیمیہ ۸؍ ۲۳۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من سألکم باللّٰہ فأعطوہ … الخ۔ (السنن الکبریٰ ۴؍۳۳۴ رقم: ۷۸۹۰ بیروت) عن فاطمۃ بنت قیس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن في المال حقًا سوی الزکاۃ۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۴۳) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۷؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہبریلوی مسلک کے حامی مدرسہ میںزکوٰۃ دینا؟ سوال(۲۶۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دیوبندی عقیدہ رکھنے والے کسی ایسے مدرسہ کو اپنی زکوٰۃ دینا درست ہے یا نہیں جو بریلوی مسلک کا حامی ہو؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اس مدرسہ میں زکوٰۃ کا مصرف ہے، یعنی مستحقینِ زکوٰۃ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور زکوٰۃ کا روپیہ احتیاط کے ساتھ ان پر خرچ کیا جاتا ہے، تو انہیں زکوٰۃ دینا درست ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰]