خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
رمی سے متعلق مسائل کیا تین دن تک رمی جمار صرف اس امت کی خصوصیت ہے؟ سوال(۱۳۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف دسویں تاریخ کو رمی کی تھی، اُمت محمدیہ کے لئے ۳؍روز تک رمی کیوں رکھی گئی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ کہنا بلا دلیل ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو رمی کی تھی؛ اس لئے کہ زمانۂ جاہلیت میں جو حج کے مناسک انجام دئیے جاتے تھے، ان میں تینوں دنوں کی رمی اور منی میں قیام کا ثبوت ملتا ہے، اس سے دلالۃً یہ معلوم ہوتا ہے کہ دینِ ابراہیمی میں بھی حج کے مناسک کے طور پر تین دن رمی کا سلسلہ تھا، اسی کی تائید دینِ محمدی میں بھی کی گئی۔ {فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ} المراد: التخییر بین التعجل والتأخر، ولایقدح فیہ أفضلیۃ الثاني خلافا لصاحب الإنصاف، وإنما ورد بنفي الإثم تصریحا بالرد علی أہل الجاہلیۃ حیث کانوا مختلفین فیہ فمن مؤتم للمعجل ومؤتم للمتأخر۔ (روح المعاني ۲؍۱۴۱ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقرمحمد سلمان منصور پوری غفر لہ ۱۹؍ ۱۱؍ ۱۴۲۶ھ