خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
احرام کے مسائل احرام کی حقیقت کیا ہے؟ سوال(۵۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: احرام کسے کہتے ہیں؟ کیا احرام کا مطلب احرام کی چادریں پہننا ہے؟ یا احرام کا مطلب تلبیہ پڑھنا ہے؟ اگر احرام کا مطلب تلبیہ پڑھنا ہے تو جو شخص بولنے پر قادر نہ ہو تو وہ احرام کی نیت سے تلبیہ کس طرح ادا کرے گا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: احرام؛ دراصل نیت اور تلبیہ (یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر خداوندی) کے اجتماع سے عبارت ہے، یعنی حج یا عمرہ کی نیت کرکے تلبیہ پڑھ لینے سے احرام شروع ہوجاتا ہے، خاص کپڑوں یا ہیئت کا نام احرام نہیں ہے۔ اور گونگا شخص جو بولنے پر قادر نہ ہو اس کے لئے صرف احرام کی نیت کرنا کافی ہے، اس پر زبان ہلانا لازم نہیں ہے۔ الإحرام شرعاً: الدخول في حرمات مخصوصۃ أي التزامہا غیر أنہ لا یتحقق شرعاً إلا بالنیۃ مع الذکر، والمراد بالذکر التلبیۃ ونحوہا۔ (شامي ۳؍۴۸۵ زکریا، منحۃ الخالق ۲؍۵۶۰ زکریا، فتح القدیر ۲؍۴۲۹) وکذا لا یشترط أي لصحۃ الإحرام ہیئۃ أي صوریۃ ولا حالۃ۔ (مناسک کبیر ۹۴) ولا یلزم العاجز عن النطق کأخرس وأمي تحریک لسانہ۔ (درمختار) ونقل الشامي بحثاً: فینبغي أن لا یلزمہ في الحج الأولیٰ؛ لأن القراء ۃ فرض