خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
لوگ خرچ کرنا چاہتے ہیں، کیا جائز ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: بستی والوں نے جن کاموں کا بیڑا اٹھایا ہے، وہ بہت اہم اور ضروری ہے؛ لیکن ان کاموں میں زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کا روپیہ نہ لگایا جائے؛ کیوںکہ ان لوگوں نے مصارفِ زکوٰۃ میں خرچ کرنے کا صحیح انتظام نہیں کیا ہے، اور اکثر مصارف میں بلا تملیک خرچ کرنے یا محض قرض کے بطور رقم زکوٰۃ دینے کا ضابطہ بنایا ہے، جو صحتِ زکوٰۃ سے مانع ہے، لوگوں کو چاہئے کہ اگر ضرورت ہو تو وہ نفلی امداد اور عطیات سے ان کاموں کو فروغ دیں۔ ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃ کما مر۔ (درمختار ۳؍۲۹۱ زکریا) ولا تجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہ الفقیر… لأن التملیک لا یتم بدون القبض۔ (الفتاویٰ الولوالجیۃ، کتاب الزکاۃ ۱؍۱۷۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت) واعلم أن التملیک شرط، قال تعالیٰ: {وَاٰتُوْا الزَّکَاۃَ} والإیتاء: الإعطاء، والإعطاء التملیک فلا بد فیہا من قبض الفقیر أو نائبہ؛ لأن التملیک لا یتم بدون القبض۔ (الاحتیار التعلیل المختار ۱؍۱۲۱ الشاملۃ، درمختار ۳؍۲۹۱ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۲؍۱۴۱۴ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہاِدارہ کا زکوٰۃ وصول کرکے ناداروں کی مدد کرنا اور دواخانہ وغیرہ بنانا سوال(۱۵۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: مرادآباد کے ایک علاقہ میں صدیقی برادری کے کچھ افراد نے ایک ادارہ قائم کررکھا ہے، یہ اِدارہ لوگوں سے زکوٰۃ اور عطیات کی رقم اکٹھا کرتا ہے، اور اس رقم سے کچھ نادار افراد کی مالی امداد کرتا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ ادارہ ایک چیئرٹیبل دواخانہ چلارہا ہے، جس میں نہایت کم قیمت پر تمام افراد کو بغیر کسی امتیاز کے دوا علاج مہیا کرائی جاتی ہے۔ اب کچھ ناگزیر حالات کے پیشِ نظر اس دواخانہ کے لئے ایک مکان کی ضرورت ہے، کیا اس طرح اس ادارہ کے ذریعہ اکٹھا کی گئی اس زکوٰۃ