خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وواجبہ … صلاۃ رکعتین لکل أسـبـوع من أي طواف کان۔ (درمختار ۳؍۴۷۲ زکریا) والجمع بین أسبوعین فأکثر من غیر صلاۃ بینہما إلا في وقت کراہۃ الصلوۃ؛ لأنہ لا کراہۃ حینئذ بالجمع شفعاً ووتراً، لکن یؤخر رکعتي الطواف إلی وقت مباح۔ (مناسک ملا علي القاري ۱۶۵) ویکرہ الجمع بین أسبوعین أو أسابیع من الطواف قبل أن یصلی رکعتین لکل أسبوع۔ (البحر العمیق ۲؍۱۲۴۵) وعن سفیان الثوريؒ أنہ سئل عن الأقران في الطواف، فنہی عنہ وشدّ، وقال لکل أسبوع رکعتان، وقال صاحب السراج الوہاج: وہٰذا الخلاف إذا لم یکن في الوقت المکروہ، أما في الوقت المکروہ فإنہ لا یکرہ إجماعاً، ویؤخر رکعتي الطواف إلی وقت المباح۔ (البحر العمیق ۲؍۱۲۴۷) ولو طاف بعد العصر یصلي المغرب ثم رکعتي الطواف، ثم سنۃ المغرب۔ (مناسک ملا علي القاري ۱۵۷) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۹؍۱۰؍۱۴۲۸ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہایک سے زائد طواف کی نمازیں ایک ساتھ پڑھنا؟ سوال(۱۱۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی ایک سے زیادہ طواف کرے اور ہر طواف کی دو رکعت واجب نماز اخیر میں ایک ساتھ ادا کرے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ جواب سے نوازیں۔ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: غیرمکروہ وقت میں پے درپے طواف کرکے سب کی