خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
تملیک اور حیلۂ تملیک حیلۂ تملیک کا شرعی ثبوت اور اس کے جواز کی صورتیں سوال(۲۷۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حیلۂ تملیک کا شرعی ثبوت کیاہے؟ حیلۂ تملیک کی اجازت کن صورتوں میں ہے؟ حیلۂ تملیک کا شرعی صحیح طریقہ جو اکابرین کے یہاں رائج ہو کون سا ہے؟ نیز جن بستیوں میں بلا ضرورت ومجبوری جدید مدارس پرانے مدرسہ سے علیحدہ ہوکر کھولے جارہے ہیں، ایسے مدارس کے لئے صدقاتِ واجبہ کی رقم وصول کرنا اور حیلۂ تملیک کے بعد ان مکاتب کی ضروریات میں خرچ کرنا کیسا ہے؟ دینے والے اور وصول کرنے والے دونوں کا حکم شرعی تحریر فرمائیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ضرورت کے وقت حیلہ اختیار کرنے کی اجازت قرآن وحدیث سے ملتی ہے، جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں فرمایا گیا ہے کہ: {وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بَہٖ وَلَا تَحْنَثْ} اور حدیث میں خراب کھجوروں کے بدلہ میں اچھی کھجور لینے سے متعلق تدبیر موجود ہے۔ بریں بناء اگر غرض صحیح کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مجبوراً زکوٰۃ وغیرہ کی رقومات میں تملیک کار استہ اپنایا جائے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے؛ لیکن جہاں ضرورت نہ ہو، یا مصرفِ زکوٰۃ موجود نہ ہو، وہاں حیلۂ تملیک کا استعمال جائز نہ ہوگا، اور ایسے مدرسہ والوں کے لئے زکوٰۃ کی رقم چندہ میں وصول کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم استعمل رجلاً علی خیبر فجاء ہ بتمر جنیب، فقال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: