خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
خود بھی دوکان کرتا ہے، اتنا پیسہ نہیں ہے کہ حج کرسکے، کیا اس کے ذمہ دوکان بیچ کر حج کرنا فرض ہے؟ جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ اگر دوکانوں کا کرایہ نہ آئے تب بھی گذر بسر ہوسکتی ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو ضرورت سے زائد دوکانیں ہیں، اگر ان کی قیمت اتنی ہے کہ وہ مصارفِ سفر حج میں کافی ہوجائے، تو مسئولہ صورت میں زید پر زائد دوکانیں فروخت کرکے حج کو جانا لازم ہے۔ بخلاف الفاضل عنہ من مسکن أو عبد أو متاع أو کتب شرعیۃ أو اٰنیۃ…، تثبت بہا الاستطاعۃ۔ (شامي ۳؍۴۶۰ زکریا) وإن کان لہ من الضیاع مالو باع مقدار ما یکفي الزاد والراحلۃ یبقی بعد رجوعہ من ضیعتہ قدر ما یعیش بفلتہ الباقي افترض علیہ الحج، وإلا لا۔ (غنیۃ الناسک ۲۰، شامي ۳؍۴۹۱ زکریا، البحر العمیق ۱؍۳۸۱، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۴۷۳ زکریا، انوار مناسک ۱۶۹) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۴؍۱۴۲۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہپہلے شادی کرے یا حج؟ سوال(۴۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شخص کے پاس اپنے بچوں کی شادی کے لئے پیسہ رکھا ہوا تھا، اور شادی کی تاریخ بھی قریب ہی تھی، اسی دوران حج کا وقت آگیا، تو یہ شخص پہلے حج کرے یا اپنے بچوں کی شادی کرے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر شادی کی ضرورت ہے اور حج کا وقت آجائے تو اولاً حج کرے، اور اگر حج کے وقت میں دیر ہو تو شادی کرنے کو ترجیح ہوگی۔ یہی حکم اپنے بچوں کی شادی