خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
قرض لے لیا ہے، یا تحویل یا حیلہ کرلیا ہے، تو شرعاً کیا حکم ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ، صدقات اور چرم قربانی کی رقم مسجد یا مدرسہ کی تعمیر میں صرف نہیں کی جاسکتی ہے، اور اس مقصد کے لئے مروجہ حیلۂ تملیک بھی جائز نہیں ہے؛ تاہم اگر سخت ضرورت کی وجہ سے شرعی حیلۂ تملیک کے بعد یہ رقم لگائی گئی ہے، تو اس جگہ سے انتفاع میں حرج نہیں۔ عن أبي سعید الخدري قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تحل الصدقۃ لغني … أو جار فقیر یتصدق علیہ فیہدي لک أو یدعوک۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۱۳۲ رقم: ۱۸۴۱) ولا تدفع الزکاۃ لبناء مسجد؛ لأن التملیک شرط فیہا ولم یوجد، وکذا بناء القناطر وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد، وکل ما لا تملیک فیہ، وإن أرید الصرف إلی ہٰذہ الوجوہ صرف إلی فقیر، ثم یأمر بالصرف إلیہا فیثاب المزکی والفقیر۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۲۲ دار إحیاء التراث بیروت) لا یصرف إلی بناء نحو مسجد کبناء القناطر والسقایات، وإصلاح الطرقات وکری الأنہار، والحج والجہاد، وکل ما لا تملیک فیہ۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا) وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی الفقیر، ثم ہو یکفن فیکون الثواب لہما، وکذا في تعمیر المسجد۔ (شامي ۳؍۱۹۱ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۹؍۷؍۱۴۲۷ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہمسجد ومدرسہ کی تعمیر میں زکوٰۃ کا پیسہ صرف کرنا؟ سوال(۳۰۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: محلہ محل سرائے میں مسجد کی تعمیر ہورہی ہے، وہاں پر چندہ کی رسید پر ’’مسجد ومدرسہ‘‘ ایک ہی پرچہ پر چھپا ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پیسہ مسجد ومدرسہ دونوں میں سے کسی ایک پر یا دونوں