خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
شکل یہ ہوسکتی ہے کہ حج کے قریبی وقت میں سفر کیا جائے (اور آج کل پرائیویٹ ٹور سے جانے میں اس میں زیادہ دشواری نہیں ہے؛ کیوںکہ بہت سے ٹور والے بالکل آخری دنوں میں سفر پر لے جاتے ہیں) یا اولاً مدینہ منورہ جائیں اور وہاں سے ذی الحجہ کے شروع میں حج کا احرام باندھ کر مکہ معظمہ چلے جائیں۔ قال الشیخ أبو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إذ أمر غیرہ بأن یحج عنہ ینبغي أن یفوض الأمر إلی المامور، فیقول: حج عني بہٰذا کیف شئت إن شئت حجۃ؟ وإن شئت حجۃ وعمرۃ، وإن شئت قرانا، والباقي من المال مني لک وصیۃ کیلا یضیق الأمر علی الحاج ولا یجب علیہ رد ما فضل إلی الورثۃ۔ (فتاویٰ قاضي خان ۱؍۳۰۷) ودم القران والتمتع والجنایۃ علی الحاج إن اذن لہ الآمربالقران والتمتع۔ (در مختار ۲؍۶۱۱ کراچي، ۴؍۳۲ زکریا) لأن المیت لو أمرہ بالتمتع فتمتع المامور صح ولا یکون مخالفا بلا خلاف بین الأمۃ الأسلاف۔ (إرشاد الساري لملا علی القاري ۳۰۴ بحوالہ جواہر الفقہ ۱؍۵۱۲ انوار مناسک ۵۵۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۲؍۱۱؍۱۴۱۹ھمطلق حج بدل کی وصیت میں کون سے حج ا حرام باندھے؟ سوال(۲۳۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کرانے کی وصیت کی اور زید کا انتقال ہوگیا، حال یہ ہے کہ جن کی طرف سے وصیت کی ہے ان پر حج فرض نہیں تھا، اب ورثاء بکر کو بھیج رہے ہیں تو بکر اس صورت میں احرام حجِ افراد ہی کا باندھے گا یا قران وتمتع کا بھی احرام باندھ سکتا ہے؟ جب کہ آمر کی طرف سے تینوں قسم کے احرام باندھنے کی اجازت ہے، اور دم قران ودم تمتع آمر کے مال سے ہوگا یا مامور خود اپنے مال سے ادا کرے؟