خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی واقف کار عالم دین کو حج کے قافلہ کے ساتھ لے جانے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں؛ بلکہ ایسا کرنا بہتر ہے؛ تاکہ اس کی نگرانی میں عازمین حج اپنے مناسک صحیح طرح انجام دے سکیں۔ ولا بد من رفیق صالح یذکرہ إذا نسي وإن تیسر مع ہٰذا کونہ من العلماء فأولیٰ جدا، ویجب أن یصحب عالما متأہلا یعلمہ۔ (غنیۃ الناسک ۳۶ ادارۃ القرآن کراچی) ولیلتمس الحاج رفیقاً صالحاً راغباً في الخیر کارہاً للشر لیعینہ علی مبارّ الحج ومکارم أخلاق السفر، ویمنعہ بعلمہ وعملہ من سوء ما یطراً علی المسافر من الضجر والضیق ومساوئ الأخلاق، ولیذکرہ باللّٰہ رؤیتہ، ویعود علی مرافقتہ برکتہ۔ (البحر العمیق ۱؍۲۹۹ المکتبۃ المکیۃ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ۲۳؍۱۲؍۱۴۱۸ھ الجواب صحیح شبیر احمد عفا اللہ عنہمسجد کا امام امیر الحجاج بن کر جائے یا امامت کرے؟ سوال(۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر وہ امیر الحجاج مسجد کی امامت کی ذمہ داری والا ہو، تو کیا اس کا ہر سال امیر الحجاج بن کر جانا افضل ہے؟ یا مفوضہ ذمہ داری کا نبھانا افضل ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اس امام کی غیرموجودگی میں اس کی جگہ امامت کی ذمہ داری انجام دینے والے معتبر شخص کا انتظام ہوجائے تو ہر سال بھی وہ امام سفر حج کرسکتا ہے۔ ولا بد من رفیق صالح یذکرہ إذا نسي وإن تیسر مع ہذا کونہ من العلماء