خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
۲۴۸-۲۴۹، البنایۃ ۳؍۴۸ نعیمیہ دیوبند، طحطاوي علی الدر ۱؍۳۴۱ کوئٹہ، المحیط البرہاني ۲؍۴۴۱ رقم: ۲۱۴۵ ڈابھیل، حلبي کبیر ۵۵۱ لاہور، حاشیۃ الطحطاوي ۵۱۳ أشرفیۃ دیوبند) فقط واللہ تعالیٰ اعلمحدیث ’’منیٰ مناخ من سبق‘‘ کا منشاء کیا ہے؟ سوال (۱۷۳):- حدیث : ’’منیٰ مناخ من سبق‘‘ کا منشاء کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ سے منیٰ میں اگر آبادی ہوجائے تو اسے شرعاً غیرمعتبر قرار دیا جائے گا؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’منیٰ مناخ من سبق والی حدیث شریف کا منشا صرف دو باتیں ہیں: الف:- اول کہ منی کی زمین پر کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ یہ جگہ عملاً پوری امت کے لئے وقف ہے اور اس کی متولی حکومت ہے۔ ب:- دوسرے یہ کہ جو شخص منی میں پہنچ کر پہلے کسی جگہ پر قبضہ کر لے وہی اس کا حقدار ہے اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ منی کی کسی طرح کی بھی آبادی معتبر نہیں ، کیوں کہ اگر یہ آبادی غیر معتبر ہوتی تو فقہاء احناف منی کو شہر مان کر وہاں جمعہ قائم کرنے کی اجازت نہ دیتے ، بریں بناء اگر حکومت کے انتظام میں وہاں کوئی تعمیر عارضی یا مستقل بنائی جائے جس پر کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو یہ حدیث شریف کے خلاف نہ ہوگی۔ ۱:- عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قلنا یا رسول اللّٰہ! ألا نبني لک بنائً یظلک بمنیٰ؟ قال لامنی مناخ من سبق۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۷۷، سنن ابن ماجۃ ۲۱۶) ۲:- قولہ قال لا: لأن منی لیس مختص بأحد إنما ہو موضع العبادۃ من الرمي وذبح الہدي والحلق ونحوہا فلو أجیز البناء فیہا لکثرت الأبنیۃ ویضیق المکان وہذا مثل الشوارع مقاعد الأسواق وعند أبي حنیفۃ أرض الحرم موقوفۃ فلا یجوز أن یملکہا أحد۔ (حاشیۃ سنن الترمذي ۱؍۱۷۷) فقط واللہ تعالیٰ اعلم