خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
ذکر الحاکم الشہید في المنتقی: أن وجوبہا علی الفور عند أبي یوسف ومحمد، وفي الخلاصۃ: وہو الأصح۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۱۳۵ زکریا) وقیل: فوري أي واجب علی الفور، وعلیہ الفتویٰ، فیأثم بتأخیرہا بلا عذر۔ (درمختار ۳؍۱۹۱-۱۹۲ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۴؍۱۱؍۱۴۳۲ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہضرورت مند کو زکوٰۃ کی رقم قرضِ حسنہ کہہ کر دینا؟ سوال(۲۳۹):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ کو قرض حسنہ کہہ کر صرف اس لئے دینا کہ ضرورت مند مستحق اپنی ناک کی خاطر لینے سے انکار کردے گا، جب کہ دینے والے کی نیت ادائیگی زکوٰۃ ہے، اور اس نے سوچ لیا ہے کہ اگر واپس کرے گا تو پھر کسی دیگر مستحق کو دے دی جائے گی، کیسا ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوٰۃ کا قرض حسنہ کہہ کر دینے سے بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، بعد میں وہ رقم مستحق زکوۃ سے واپس نہ لی جائے۔ ومن أعطی مسکینًا دراہم وسماہا ہبۃ، أو قرضاً ونوی الزکاۃ، فإنہا تجزیہ وہو الأصح۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۷۱) ولا یشرط علم الفقیر أنہا زکاۃ علی الأصح، حتی لو أعطاہ شیئاً وسماہ ہبۃ أو قرضاً ونوی بہ الزکاۃ صحت۔ (مراقي الفلاح ۳۹۰، مجمع الأنہر ۱؍۱۹۶، البحر الرائق ۲؍۳۷۰ زکریا) وشرط صحۃ أدائہا نیۃ مقارنۃ لہ أي للأداء، وتحتہ في الشامیۃ: قولہ نیۃ: أشار إلی أنہ لا اعتبار للتسمیۃ فلو سماہا ہبۃ أو فرضاً تجزیہ في الأصح ۔ (شامي ۳؍۱۸۷ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۰؍۱؍۱۴۳۰ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ