خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
(درمختار مع الشامي ۳؍۵۲۰ زکریا) فالحاصل أن عند أبي حنیفۃ شرط جواز الجمع بین صلاۃ الظہر والعصر في وقت الظہر یوم عرفۃ إحرام الحج، والإمام الأکبر والجماعۃ، وعندہما إحرام الحج لا غیر، وفي المنافع: واعلم أن من شرط الجمع: الوقت والمکان والإحرام والإمام والجماعۃ عن أبي حنیفۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۵۰۷ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۲۸) من صلی الظہر في رحلہ أي في منزل وحدہ صلی العصر في وقتہ عند أبي حنیفۃ۔ (عنایہ علی الہدایۃ ۲؍۳۷۱ کوئٹہ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۶؍۱۴۳۳ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہاہل خیمہ کے لئے عرفات میں جمع بین الصلوٰتین کا حکم؟ سوال(۱۸۸):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اہلِ خیمہ کے لئے عرفات میں جمع بین الصلوٰتین مشروع ہے یا نہیں؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق چوںکہ عرفات کے میدان میں خیموں میں ٹھہرنے والے حجاج سرکاری امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھ پاتے (جو جمع بین الصلوٰتین کی منجملہ شرطوں میں سے ایک ہے) لہٰذا وہ خیمہ میں رہتے ہوئے ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں پڑھیںگے۔ عن جابر رضي اللّٰہ عنہ في حدیث طویل ورکب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی منٰی … حتی إذا أتی عرفۃ … أذن ثم أقام فصلی الظہر ثم أقام فصلی العصر ولم یصل بینہما شیئا۔ (صحیح مسلم رقم: ۱۲۱۸، سنن أبي داؤد رقم: ۱۹۰۵) قال العلامۃ العثماني تحتہ: قال محمد: أخبرنا أبو حنیفۃ عن حماد عن