خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
زکوٰۃ کی رقم قرض میں دینا زکوٰۃ کی رقم بطور قرض دینا؟ سوال(۲۳۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زکوٰۃ کی رقم بطور قرض دی جاسکتی ہے؟ اگر زید جوکہ ایک مدرسہ کا ناظم ہے، اپنی تجارت میں یہ رقم لگائے تو کیا یہ درست ہے، جب کہ اکثر مدارس والے اپنا کل روپیہ جس میں زکوٰۃ وفطرہ شامل ہوتا ہے، بینک میں رکھتے ہیں، اور بینک والے بھی یہ روپیہ تجارت ہی میں لگاتے ہیں، اگر یہی صورت زید خود اختیار کرے تو کیا یہ درست ہے؟ باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ کا ناظم مدرسہ کی رقومات کا امین ہے، اسے اس امانت (زکوٰۃ وغیرہ) میں تصرف کرتے ہوئے اسے بطور قرض دینا یا تجارت میں لگانا جائز نہیں، بینک والے کیا کرتے ہیں، اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں اور زید ناظم مدرسہ اپنی تحویل میں امانت کا خود مسئول ہے، اس لئے بینک کے خلافِ شرع معمول سے اس کے لئے وجہ جواز پیدا نہیں ہوسکتی۔ (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم ۶؍۲۱۸، فتاویٰ محمودیہ ۱؍۵۲۶، ۱۶؍۱۰۸) متولي الوقف إذا رہن الوقف بدین لا یصح، وفي جامع الفتاویٰ: وکذٰلک أہل الوقف إذا رہنوا، لا یجوز۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ / باب تصرف القیم في الأوقات ۵؍۷۶۰ إدارۃ القراٰن کراچی، کذا في الفتاویٰ الہندیۃ / الباب الخامس في ولایۃ الوقف ۲؍۴۲۰ رشیدیۃ)