خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
وکرہ إعطاء فقیر نصاباً أو أکثر۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۳۵۳ کراچی، ۳؍۳۰۳ زکریا) عن عمرو بن دینار قال: قال عمر رضي اللّٰہ عنہ: إذا أعطیتم فأغنوا یعني من الصدقۃ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۶؍۵۱۸ رقم: ۱۰۵۲۶) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اغنوہم في ہٰذا الیوم۔ (سنن الدار قطني ۲؍۱۳۳) والدفع إلی الواحد أفضل إذا لم یکن المدفوع نصابًا۔ (تبیین الحقائق / باب المصرف ۱؍۳۰۲) وندب الإغناء عن السوال في ذلک الیوم۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۸۸) إذا أعطی من زکاتہ مأتي درہم أو ألف درہم إلی فقیر واحد، فإن کان علیہ دین مقدار ما دفع إلیہ أو کان صاحب عیال یحتاج إلی الإنفاق علیہم فإنہ یجوز ولایکرہ، وإن لم یکن علیہ دین ولا صاحب عیال، فإنہ یجوز عند أصحابنا الثلاثۃ ویکرہ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۳؍۲۲۱ رقم: ۴۱۸۵ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۵؍۱۱؍۱۴۱۵ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہزکوٰۃ کے پیسہ سے غریب کے لئے مکان بناکر دینا؟ سوال(۱۷۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا زید اپنی زکوٰۃ کی رقم سے کسی غریب کو مکان تعمیر کراکر دے، اپنے ملازم کے ذریعہ اپنی نگرانی میں مثلاً یہ کہہ دیا کہ روز کا حساب جو خرچ ہے وہ لے لے، زید ملازم جو بھی خرچ آتا ہے، وہ رقم زید کی کمپنی سے یا زید کے پاس سے خود لے جاکر تقسیم کردیتا ہے، مزدور کو اتنا، گارے والے کو اتنا، پتھر والے کو اتنا، اب سوال یہ ہے کہ صاحب مکان جس کے لئے تعمیر کررہا ہے، اس کے ہاتھ میں یہ رقم نہیں آتی، اور صاحب مکان اس عمل پر راضی بھی ہے، کہ رقم میرے پاس ہو تو ضائع