خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: أتی رجل من بني تمیم إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقال: یا رسول اللّٰہ! إذا أدیت الزکاۃ إلی رسولک فقد برئت منہا إلی اللّٰہ وإلی رسولہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نعم إذا أدیت الزکاۃ إلی رسولي فقد برئت منہا لک أجرہا وإثمہا علی من بَدّلہا۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الزکاۃ / باب الزکاۃ تتلف في یدي الساعي ۵؍۵۰۲ رقم: ۷۳۸۰، المصنف لعبد الرزاق، الزکاۃ / باب موضع الصدقۃ ۴؍۴۵ رقم: ۶۹۱۹) بخلاف ما إذا ضاعت في ید الساعي؛ لأن یدہ کید الفقراء۔ (رد المحتار / کتاب الزکاۃ ۲؍۲۷۰ کراچی) في النوازل: إذا قال المودع: سقطت الودیعۃ أو ’’بیفتاد أزمن‘‘ لا یضمن، ولو قال: لا أدري أضعتہا أو لم أضع یضمن۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۳۴۲) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۵؍۱۴۲۹ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہکیا سفراء کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟ سوال(۲۹۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: دینی مدارس کے لئے سفیر حضرات رسید بک لے کر کثیر تعداد میں دوسرے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے چندہ مانگنے آتے ہیں، ان میں سے اکثر حضرات چندہ کی رقم میں سے حصۂ مقررہ پر چندہ کرتے ہیںاور بعض کی تنخواہیں ہوتی ہیں،اگر زکوٰۃ کی رقم ان کو دی جائے توکیا زکوٰۃ کا فرض ادا ہو جائے گایانہیں؟ کیوں کہ سننے میں آیا ہے کہ چندہ مانگنے والوں میں بعض کا حصہ ہوتا ہے، تو پوری رقم مدرسہ میں نہیں پہنچتی ہے، نیز مسئلہ بتایا جاتا ہے کہ مدارس میں جو زکوٰۃ دی جاتی ہے اگروہ صحیح مصرف میں خرچ کریں گے تو زکوٰۃ ادا ہوگی ورنہ نہیں، اور یہ معلوم ہونا بہت مشکل ہے کہ زکوٰۃ کی رقم جو سفیر کو دی گئی ہے اسے صحیح مصرف میں خرچ کیا جاتا ہے یانہیں؟ کیوں کہ چندہ مانگنے کے لئے