خزائن شریعت و طریقت |
ہم نوٹ : |
صرف کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ پتہ چلنا دشوار ہے کہ ان میں سے کون مستحق ہیں اور کون نہیں؟ کیوںکہ جن نابالغ بچوں کے والد صاحبِ نصاب ہیں، ان کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ قال اللّٰہ تعالیٰ: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} [التوبۃ: ۶۰] عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا تحل الصدقۃ لغني، ولا لذی مرۃ سوي۔ (سنن الترمذي، کتاب الزکاۃ / باب ما جاء من لا تحل لہ الصدقۃ ۱؍۱۴۱ رقم: ۶۴۷) ولا تدفع إلی غني یملک نصاباً من أي مالٍ کان وعبدہ وطفلہ؛ لأنہ یعد غنیًا بغناء أبیہ عرفًا۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۲۴ دار إحیاء التراث العربي بیروت) ولایجوزدفعہا إلی ولد الغني الصغیر کذا في التبیین۔ (الفتاوی الہندیۃ ۱؍۱۸۹ دار إحیاء التراث العربي بیروت) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۴؍۶؍۱۴۲۶ھ الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہزکوٰۃ وصدقات کی رقم خرچ کئے بغیر جس مکتب کے بند ہو نے کا قوی اندیشہ ہو؟ سوال(۲۶۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک گاؤں والوں نے اپنے نونہال بچوں کو اسلامی تعلیم سکھانے کی غرض سے مکتب قائم کررکھا ہے، جس کے لئے صرف ایک مدرس کا انتظام ہے، مدرس کی تنخواہ کے لئے یہ لوگ اپنے ہی گاؤں سے عیدالفطر کے موقع پر صدقۂ فطر اور عیدالاضحی کے موقع پر چرمِ قربانی وصول کرتے ہیں، اور سال بھر کی تنخواہ کا انتظام اس طرح کرلیتے ہیں، گاؤں والوں کی مالی حالت ۷۵؍فیصد کمزور ہے، دس بارہ لوگوں کو چھوڑکر بقیہ حضرات پر شرعی طریقہ سے زکوٰۃ بھی واجب نہیں ہے۔ واضح رہے کہ